کوئی کسی کا دشمن نہیں آجکل
انسان کا رویہ ہی اسکا دشمن ہے آجکل
میں آخر ایسا کیوں سوچتا ہوں آجکل
جب میں ہی اپنا بڑا دشمن ہوں آجکل
کسی کے پاس میرے لئے اتنا فالتو وقت ہی کہاں آجکل
دشمنی کا یہ مہنگا شوق میں کس طرح پالوں آجکل
زرداری ہی کافی ہےمیرے لئے آجکل
جو ہم غریبوں کا خون چوس رہا ہے آجکل
میرے شہر میں کوئی بھی محفوظ نہیں آجکل
مہنگائی اور دہشت گردی کا راج ہے آجکل
اس ملک کے وسائل کو کون نگل رہا ہے آجکل
ہر چیز کی قیمت آسمان پر پہنچ گئی ہے آجکل
وزیروں اور مشیروں کی بہت فراوانی ہے آجکل
چوروں اور ڈاکوؤں کی بھی موج ہو گئی ہے آجکل
میرے وطن کے لوگ لٹ رہے ہیں آجکل
قانوں کے رکھوالے کہاں مصروف ہیں آجکل