آج کی شب تم نہ آ پائے، مگر اچھا ہوا
چاندنی روئی ہوئی ہے، چاند ہے ٹُوٹا ہوا
شام کا جادُو تھا، یا شِدّت تُمھاری یاد کا
وقت کیا، مُجھ کو تو دریا بھی لگا ٹھہرا ہوا
جان و تن جلتے ہیں، لیکن ایک کیفیّت کے ساتھ
حُسن انگارہ تو ہوتا ہے، مگر پگھلا ہوا
ہجر کا احساسِ تنہائی ہے بے قیدِ مقام
مُجھ کو تو صحِنِ چمن بھی دامنِ صحرا ہوا
جذبۂ تخلیق نے ماتم کی مُہلت ہی نہ دی
ہر لُٹے منظر سے اِک منظر نیا پیدا ہوا
وقت کی اپنی طبیعت، عِشق کا اپنا مزاج
زندگی پر چھا گیا ہے ایک پَل گُزرا ہوا
آدمی اِک تھا، مگر اس کے ہزاروں رُوپ تھے
وہ کبھی بندہ، کبھی آقا، کبھی مولا ہوا
کیا سوائے موت، کچھ بھی دستِ قدُرت میں نہیں
یہ تماشا تو ہے صدیوں سے میرا دیکھا ہوا