آج ہمھارے حال پر رویا دسمبر
وہ دیکھو ٹوٹ کر برسا دسمبر
گزر جاتا ہے سارا سال یوں ہی
نہیں کٹتا مگر بس تنہا دسمبر
بھلا بارش سے کیا سہراب ہو گا
تمھارے وصال کا پیاسا دسمبر
وہ کب بچھڑا نہیں اب یاد لیکن
بس اتنا معلوم ہے کہ تھا دسمبر
یوں پلکیں بھگتیں رہتی ہیں ایسے
میری آنکھوں میں آ ٹھہرا دسمبر
جمع پونجی یہی ہے عمر بھر کی
بس میری تنہائی اور میرا دسمبر
سبب نہ پوچھ میرے آنسوؤں کا
یہ ہے پہلے ہجر کا پہلا دسمبر
میں اِن یادوں سے بچ کے جاوں کیسے
کہ ملنا تو اب دور ہے پہلا دسمبر
میری آنکھوں سے اگر دیکھو تو جانوں
کہ ہے برسات میں میرا جلتا دسمبر
ابھی تک قہر میں ڈوبا ہے آنگن مسعود
ابھی تک مجھے یاد ہے پچھلا دسمبر