میرےآشیانے کاپتہ وہ پوچھتی ہے کہاں سے آخر برق کو کیا دشمنی ہےمیرےآشیاں سے وہ کون ہے جو مجھےمیری منزل تک لے جائے میں وہ مسافر ہوں جو بچھڑگیا کارواں سے اب تو کسی خوشی کاگزرنہیں ہوتا یہاں سے جب سے وہ گیا ہے میرے دل کے مکاں سے