وہ وقت میری جان بہت دور نہیںہے
جب درد سے رک جائیں گی سب زیست کی راہیں
اور حد سے گزر جائے گا انوہِِِ نہانی
تھک جائیں گی ترسی ہوئی ناکام نگاہیں
چھِِِن جائیں گے مجھ سے مرے آنسو مری آہیں
چَََھن جائے گی مجھ سے مری بے کار جوانی
شاید مری اُُلفت کو بہت یاد کرو گی
اپنے دلِِِ معصوم کو ناشاد کرو گی
آؤ گی مری گور پہ تم اشک بہانے
نوخیز بہاروں کے حسیں پھول چڑھانے
شاید مری تربت کو بھی ٹھکرا کر چلو گی
شاید مری بے سُُد وفاؤں پہ ہنسو گی
اِِس وضع کرم کا بھی تمہیں پاس نہ ہو گا
لیکن دلِِ ناکام کو احساس نہ ہو گا
القصہ مآلِِ غمِِ الفت پہ ہنسو تم
یا اشک بہاتی رہو فریاد کرو تم
ماضی پہ ندامت ہو تمہیں یا کہ مسرت
خاموش پڑا سوئے گا داماندہ اُُلفت