آخری دم وہ بھر گیا ہو گا
اب تلک کوچ کر گیا ہو گا
غمِ فرقت سے دل بھی گُھل گُھل کر
خود کشی کب کا کر گیا ہو گا
بھول کر اپنی التجاؤں کو
وہ سماں سے مکر گیا ہو گا
بھاتے بھاتے ہی شخص وہ میرے
دل سے کب کا اتر گیا ہو گا
دشتِ مجنون کے سرابوں میں
ڈوب کر قیس تَر گیا ہو گا
قصّہِ عشق یادگاری ہے
زخم سینے کا بھر گیا ہو گا