میری بے بسی پہ ہنسی تجھے اختیار ہے
دسترس میں نہیں حالات روح بے قرار ہے
دربار عشق میں رہیں غمگین نگاہیں
تلافی ناں کر سکے دل شرم سار ہے
الجھا ہوا ذھن رسوائیوں کے خوف سے
پچھتاؤں کے سفر کا شہر سوگوار ہے
آنچل سے اپنے ڈھانپ دینا میرے وجود کو
ہچکی لیتی زندگی کی بس آخری پکار ہے