آرزوئیں تشنہ میری
خواہشیں سب ناتمام
میرے سارے رشتے ناتے
کچے دھاگے سے بندھے
ریت کے جیسے گھروندے
جیسے پیکر کانچ کے
میرا تو ہر اک تعلق
ٹوٹا پھوٹا اور خام
حیثیت کیا ہے مری
اور میں بھی ہوں کیا آدمی
بھیڑ میں لوگوں کی اور محفل میں تنہا آدمی
ایک بکھری زندگی کو جوڑنے میں منہمک
اور پھر ناکام ہوکر اپنے زخمی ہاتھ زخمی روح تکتا آدمی
دوسروں کے درد کو دل کی تڑپ کرنے کا شوق
دوسروں کے غم کو سینے سے لگانے کی لگن
اور نتیجہ
خالی ہاتھوں میں دہک اُٹھتی ہے آنکھوں کی جلن
میرے دل کی بات ہے بس دل میں رہنے کے لیے
جذبے آنسو بن کے بس سینے میں بہنے کے لیے
اور زباں خاموش، بس خاموش رہنے کے لیے
سینہ ہے جلتا ہوا احساس کی اک آگ میں
اور جاں احساس کی یہ آگ سہنے کے لیے
بے وجہ جیتا ہوا، آدھا ادھورا آدمی
یہ جیے جاتا ہے جو آدھا ادھورا آدمی
یہ ہے کس کے کام کا
آدمی بھی کیا ہے، بس یہ آدمی ہے نام کا