آدھا ادھورا آدمی
Poet: M Usman Jamaie By: M Usman Jamaie, karachiآرزوئیں تشنہ میری
 خواہشیں سب ناتمام
 میرے سارے رشتے ناتے 
 کچے دھاگے سے بندھے
 ریت کے جیسے گھروندے
 جیسے پیکر کانچ کے
 میرا تو ہر اک تعلق 
 ٹوٹا پھوٹا اور خام
 
 حیثیت کیا ہے مری
 اور میں بھی ہوں کیا آدمی
 بھیڑ میں لوگوں کی اور محفل میں تنہا آدمی
 
 ایک بکھری زندگی کو جوڑنے میں منہمک
 اور پھر ناکام ہوکر اپنے زخمی ہاتھ زخمی روح تکتا آدمی
 
 دوسروں کے درد کو دل کی تڑپ کرنے کا شوق
 دوسروں کے غم کو سینے سے لگانے کی لگن
 اور نتیجہ
 خالی ہاتھوں میں دہک اُٹھتی ہے آنکھوں کی جلن
 
 میرے دل کی بات ہے بس دل میں رہنے کے لیے
 جذبے آنسو بن کے بس سینے میں بہنے کے لیے
 اور زباں خاموش، بس خاموش رہنے کے لیے
 سینہ ہے جلتا ہوا احساس کی اک آگ میں 
 اور جاں احساس کی یہ آگ سہنے کے لیے
 بے وجہ جیتا ہوا، آدھا ادھورا آدمی
 
 یہ جیے جاتا ہے جو آدھا ادھورا آدمی
 یہ ہے کس کے کام کا
 آدمی بھی کیا ہے، بس یہ آدمی ہے نام کا
  
کس بات کی آخر جلدی ہے کس بات کا پھر یہ رونا ہے
دنیا کے مصائب جھیلنے کو مالک نے بنایا ہے جیون
آرام بھلا پھر کاہے کا پھر کاہے یہ سونا ہے
بے مقصد جینا کہتے ہیں حیوان کے جیسا جینے کو
انساں کے لیے تو یہ جیون یارو پر خار بچھونا ہے
دشوار سہی رستہ لیکن چلنا ہے ہمیں منزل کی طرف
منزل کی طلب میں عاکفؔ جی کچھ پانا ہے کچھ کھونا ہے







 
  
  
  
  
  
  
  
  
  
  
 