آرزو سے ترک ہوکر سبھی قافلے راہ میں چھوڑ دیئے
اور اپنی صدا کے سجدے وہ عبادت گاہ میں چھوڑ دیئے
کبھی پستی کبھی محرومی نے بڑا خفیف کیا ہے آج تک
کچھ ذلت گذر گئی کچھ درد اپنی آہ میں چھوڑ دیئے
عمیق ہیں مھربانیاں جب بھی حماقت ہوئی ان سے
سمجھ کر شفقتی سلسلے تو انہوں کو گناہ میں چھوڑ دیئے
امید ہی نہیں کہ کوئی میری ضیافت میں آئے گا
امکان تو سبھی تھے ایسے اور الوداع میں چھوڑ دیئے
رفیقوں سے اک بار دل کے احاطے مل گئے تھے مجھے
سارے جرم سنگین تب سے پناہ میں چھوڑ دیئے
تفصیر وار ہے دنیا بے ریا رہوں بھی کیسے سنتوش
اب تو یہ اصول دستور اصلاح میں چھوڑ دیئے