دور تھی منزل نہ جانے
کس قدر
اور سفر صحرا کا تھا
دھول اتنی تھی کہ راہوں کا پتا ملتا نہ تھا
ریگزارِ درد جس میں کوئی نخلستاں نہ تھا
اور تھوہر بھی تھے سب سوکھے ہوئے
پیر صدیوں کے سفر کی
کاوشوں کا بوجھ اوڑھے
چل رہے تھے
یا تھکا ماندہ بدن
اپنے پیروں کو گھسیٹے جارہا تھا
تھی ابھی کچھ دور منزل
پھنس گئے جب پیر
دھنستی ریت میں
گر گیا جب جسم تپتی ریت پر
میں نے آنکھیں موندھ لیں
جیسے مر جائے کوئی
اٹھ کے پھر چلنے کی خاطر
سانس لینے کے لئے