ساحل پہ صبح تنہا تھا، روح بھی اُداس تھی
سمندر تھا حدِنظر، مگر پھر بھی پیاس تھی
بے رنگ و بے ذائقہ ، آج تھی اخبار اور چائے
ہر صبح حسیں تھی میری، جب وہ پاس تھی
لاپرواہ تھا ،مجھ سے چکناچور ہوگئی
اک آئینے کی طرح وہ، مورت حساس تھی
دن بھر قلم کاغذ، اور رات کو مشاعرے
شاعری ہی میری میرے، پانچوں حواس تھی
کُھل جاتا تھا دروازہ، دہلیز پہ پاﺅں رکھتے
اس قدر وہ میری، آہٹ شناس تھی
شانوں تک تھا ابھی پانی، کہ حاوی پکار اُٹھی
ورنہ آج اپنی ، ڈوبنے پہ آس تھی