آغاز عشق عمر کا انجام ہو گیا

Poet: اسماعیل میرٹھی By: Aqib, Rawalpindi

آغاز عشق عمر کا انجام ہو گیا
ناکامیوں کے غم میں مرا کام ہو گیا

تم روز و شب جو دست بدست عدو پھرے
میں پائمال گردش ایام ہو گیا

میرا نشاں مٹا تو مٹا پر یہ رشک ہے
ورد زبان خلق ترا نام ہو گیا

دل چاک چاک نغمۂ ناقوس نے کیا
سب پارہ پارہ جامۂ احرام ہو گیا

اب اور ڈھونڈئیے کوئی جولاں گہہ جنوں
صحرا بقدر وسعت یک گام ہو گیا

دل پیچ سے نہ طرۂ پر خم کے چھٹ سکا
بالا روی سے مرغ تہ دام ہو گیا

اور اپنے حق میں طعن تغافل غضب ہوا
غیروں سے ملتفت بت خودکام ہو گیا

تاثیر جذبہ کیا ہو کہ دل اضطراب میں
تسکیں پذیر بوسہ بہ پیغام ہو گیا

کیا اب بھی مجھ پہ فرض نہیں دوستیٔ کفر
وہ ضد سے میری دشمن اسلام ہو گیا

اللہ رے بوسۂ لب مے گوں کی آرزو
میں خاک ہو کے درد تہ جام ہو گیا

اب تک بھی ہے نظر طرف بام ماہ وش
میں گرچہ آفتاب لب بام ہو گیا

اب حرف نا سزا میں بھی ان کو دریغ ہے
کیوں مجھ کو ذوق لذت دشنام ہو گیا

Rate it:
Views: 602
27 Oct, 2021
More Sad Poetry
ہَر ایک مُحبت مُحبت کرتا پھِرتا ہے ہَر ایک مُحبت مُحبت کرتا پھِرتا ہے یہاں لیکن
سَچ ہے کہ بہت سے مُحبت کے نام پر کھِلواڑ کرتے ہیں
یہ خوابوں کی بَستی کہاں سَچ مِلتا ہے وَفا والو
یہ جھُوٹی دُنیا میں اَکثر اپنے دِل کو بَرباد کرتے ہیں
یہ راہوں میں سَچّوں کے پیچھے پھِرنے والے کم ملِتے
یہ لوگ تو بَس دُکھ دے دِلوں کو بَرباد کرتے ہیں
یہ سچّے جَذبوں کا گہوارہ اَکثر سُونا ہی رہتا ہے
یہ پیار کے نام پر لوگ فَقط شاد کرتے ہیں
یہ دُنیا َبس نام کی خوشیاں سچّے دِلوں کو کب مِلتی؟
یہ راہوں میں اَکثر اپنی سچَّائی کو بَرباد کرتے ہیں
یہ خَلوص کا سایا بھی اَب نایاب نظر آتا ہے ہم کو
یہ مَطلب پَرَست فَقط چہرے ہی آباد کرتے ہیں
یہ وَعدوں کا موسم کب رَہتا ہے گُزر جاتا ہے لَمحوں میں
یہ رِشتوں کے نام پر اَکثر دِل ناشاد کرتے ہیں
یہ سَچّے جَذبے بھی مظہرؔ دُکھ سَہتے سَہتے چُپ ہو جاتے
یہ لوگ تو َبس اَپنے مَطلب سے اِرشاد کرتے ہیں
مظہرؔ تُو سَچّوں کے سَنگ چَل بیکار نہ کر دِل کو
یہ جھُوٹ کی دُنیا والے اَکثر دِل ناشاد کرتے ہیں
MAZHAR IQBAL GONDAL