پھر اُس نے جانے کی بات کی تو آنسو چھلک پڑے
ہنسی یوں میری چھین لی تو آنسو چھلک پڑے
ہُوا جو زِکرِ فراق یوں عالمَ وصل میں
تھم گئی سانسوں کی لڑی تو آنسو چھلک پڑے
وہ کہنے لگا میں لَوٹ کر آؤں گا پھر کبھی
آئی نہ جب وہ گھڑی تو آنسو چھلک پڑے
چند لمحوں کی رفاقت یوں سوزَ رواں دے گی
پھر وحشت زدہ ہوئی زندگی تو آنسو چھلک پڑے
وقتِ رخصت اُس نے دیکھا بھی نہ مُڑ کر جو
دِل سے اک آہ اُٹھی تو آنسو چھلک پڑے