آنکھوں میں خواب تازہ ہے، دل میں نیا خیال بھی
اب اگر مہرباں رہے، گردشِ ماہ و سال بھی
ملنے کے احتمال تک، ہم ترے منتظر رہے
اب تو نہیں رہا مگر، ملن کا احتمال بھی
وقت کہاں رُکا بھلا، پر یہ کسے گمان تھا
عمر کی زد میں آئے گا تجھ سا پری جمال بھی
اس نے دیئے تھے پھول جو اب اسے کیا دکھائیے
رکھتا نہیں ہے جب کہ دل خواہشِ اندمال بھی
خواب جمال تازہ تر، آیا تھا چور کی طرح
دل سے کُھرچ کے لے گیا آپ کے خدوخال بھی
لاؤ تو میں ہی ٹانک دوں تارے کو آسمان پر
میرے ہی ہاتھ سے اگر ہونا ہے یہ کمال بھی