آنکھیں آنکھیں قرار آنکھیں ہیں
دل جگر آر پار آنکھیں ہیں
حسن و رعنائی اور کیا کہنا
تیری صورت بھی یار آنکھیں ہیں
بارہا دل کو توڑ کر دیکھا
بارہا بار بار آنکھیں ہیں
بے قراری میں بھی قرار آئے
منتظر انتظار آنکھیں ہیں
ہر ادا کی طرح یہ بھاتی ہیں
ہائے تیری فنکار آنکھیں ہیں
غم کی شمعیں بجھ گئیں ساری
بن گئی روزگار آنکھیں ہیں
دل کی وادی میں دلکشی کے لیے
گل و خوشبو بہار آنکھیں ہیں
زندگی کا وجود ہیں آنکھیں
موت کا تختہ دار آنکھیں ہیں
اک غموں کا وسیع سمندر ہیں
خوشی کا اظہار آنکھیں ہیں
اشتیاق تو نے ڈوب کر بھی نہ جانا
تیرا اب بھی اعتبار آنکھیں ہیں