روےً گا وہ میری مرقد پہ اک دن یارو
احساس تنہایً سے جب آنکھیں بھیگ جائیں گی
زندگی کی خنک دھوپ میں جب کوئ سایہ نہ ملے گا
تپش وفا کی لو میں آنکھیں بھیگ جائیں گی
گمنام سوچوں کی محفل میں وہ جب مگن ھو گا
جرم محبت کی داستاں سے آنکھیں بھیگ جائیں گی
لے گا کوئ میرا نام جو اس کے روبرو
اک پگلی دیوانی کے ذکر سے آنکھیں بھیگ جائیں گی
نہ دے سکیں گے دلاسہ پرُہجوم رقیب
اُس رفیق حیات کی خاطر آنکھیں بھیگ جائیں گی
پڑھے گا جو میرا نام کسی کتبے پر
بھولی بسری یادوں سے آنکھیں بھیگ جائیں گی
پوچھیں گے جو لوگ اُس سے میری جُدائ کا سبب
تفکر اظہار بیاں سے آنکھیں بھیگ جائیں گی
ابھی تو ھے ناشاد وہ میرے ساتھہ سے “فائز“
کبھی ہلکے سے تبسم پہ بھی آنکھیں بھیگ جائیں گی