سورج جب بھی ڈھلتا ہے تو آنکھیں نم ہو جاتی ہیں
ہوتی ہے جب روشنی مدہم تو آنکھیں نم ہو جاتی ہیں
پہلے تسکینِ دل کی خاطر تمہارا نام لکھتا ہوں
لکھ کر جب نام پڑھتا ہوں تو آنکھیں نم ہو جاتی ہیں
مجھ پر تیری یادوں کے جب عذاب اُترتے ہیں
تیرے خیالوں سے گزرتا ہوں تو آنکھیں نم ہو جاتی ہیں
میں بھری محفل میں اکثر ہنس کر وقت گزار لیتا ہوں
تنہائی مٰیں جب خود سے ملتا ہوں تو آنکھین نم ہوجاتی ہیں
کوئی جب پیار سے مجھ کو اپنے گلے لگاتا ہے
ٹوٹ جاتا ہے میرا ضبط آنکھین نم ہو جاتی ہیں
کبھی ایسا بھی ہوتا ہے کے سوالِ محبت پر
کسی سے کچھ نہ کہہ پاوں تو آنکھیں نم ہوجاتی ہیں
کوئی جب پوچھ لیتا ہے کے تمہارا حال کیسا ہے
میں اگر خاموش رہ جاؤں تو آنکھیں نم ہو جاتی ہیں
میں دن کو مصروفیت کے بہانے ٹال دیتا ہوں
مگر ابھرتی جب چاندنی ہے تب آنکھیں نم ہو جاتی ہیں
ابھی تک باقی ہے جاناں مجھ میں احساس غربت کا
بنا کوئی تاج محل دیکھوں تو آنکھیں نم ہو جاتی ہیں
ہزاروں دلوں پہ میرے دل کا راج ہے مگر ساگر
یاد آتے ہیں جب تیرے انداز تو آنکھیں نم ہو جاتی ہٰیں