ذکر جب بھی تیرا چھیڑا اداس رہنے لگے
یاد جب ٹوٹ کر آئی تو آنکھ بھر آئی
ہم نے چاہا تھا کہ اظہار کریں گے تم سے
بات منہ تک ہی نہ آئی کہ آنکھ بھر آئی
ہم نے چوکھٹ پہ سجائے تھے پھول تیرے لئے
خالی دستک دی سنائی تو آنکھ بھر آئی
عید کی رات گزرتی تھی سنگ سنگ تیرے
عید کی رات جو آئی تو آنکھ بھر آئی
اب تیرے وصل کے دن ہیں میرے وصال کے دن
سانس اجڑی ہوئی آئی تو آنکھ بھر آئی