آنکھ میں اجڑے گھرانے تو نہیں رکھ سکتی
میں یہاں خواب پُرانے تو نہیں رکھ سکتی
درد بیٹھا ہے ترا قلب میں اپنا بن کر
اس طرح اور خزانے تو نہیں رکھ سکتی
خود ہی اڑ جائیں گے اب یاد کے بادل بن کر
آنسوؤں کو میں سرہانے تو نہیں رکھ سکتی
وہ بصیرت کی ذرا آنکھ سے دیکھے اک دن
زندگی اُس کے بہانے تو نہیں رکھ سکتی
میں نے اس عشق کی تاریخ بدل کر رکھ دی
اور اب تیرے زمانے تو نہیں رکھ سکتی
جان لیوا ہے ترا ذکر مری جاں وشمہ
درد کے اور فسانے تو نہیں رکھ سکتی