آنکھ میں تیرے خواب کا موسم
پھر نئے اک عذاب کا موسم
تیرے بن سب ایک ہوئے ہیں
خار کا موسم گلاب کا موسم
اب کبھی نہ لوٹ کے آئے گا
میرے گمشدہ شباب کا موسم
نظریں اب بھی ڈھونڈ رہی ہیں
تیری نگاہِ خانہ خراب کا موسم
چشم کے ساغر کھو بیٹھے ہیں
تیرے دیدار کی شراب کا موسم
تجھ سے بچھڑ کر ٹھہر گیا ہے
رعنا کے دلِ بے تاب کا موسم