میری آواز کو اک ساز میں لا نے کے لئے
اک دیا روز جلے مجھ کو جلانے کے لئے
تو اگر روٹھ گیا ہے تو کوئی بات نہیں
ہر جتن میں نے کیا تجھ کو منانے کے لئے
خود کو رسوا میں کروں تجھ پہ کوئی آنچ نہ ہو
میں پریشان پھروں تیرے زمانے کے لئے
زندگی تیری وفاؤں کا صلہ کس کو ملا
باتیں بنتی ہی گئیں میرے فسانے کے لئے
عارف اس زیست کا حاصل تو یہی ہے لیکن
ہنستے گاتے ہی رہیں سب کو ہنسانے کے لئے