آگ سی اِک لگی رہی مجھ میں
وہ سلامت یُونہی رہی مجھ میں
میں بھٹکتا رہا اندھیروں میں
روشنی سی گمی رہی مجھ میں
وہ درخشاں سی ایک صورت بھی
خون میں تر ہوئی رہی مجھ میں
جو بسائی نہ جا سکی مجھ سے
وہ عمارت کھڑی رہی مجھ میں
میں تو موجود ہی نہ تھا مجھ میں
جنگ کس سے چِھڑی رہی مجھ میں
شبِ فرقت مرے وجود اندر
اِک قیامت مچی رہی مجھ میں
ہوئے تاراج شہرِ دل اندر
گلی اُس کی بچی رہی مجھ میں
لشکرِ غم سے قتل ہو کہ مری
لاش برسوں پڑی رہی مجھ میں
جس کو ڈھونڈا گیا جہانوں میں
ذات وہ تھی چھپی رہی مجھ میں
میری ہستی کی بود اور نبود
صرف "لا" تک لکھی رہی مجھ میں
کب سے اندوگہیں تھا دل میرا
وہ بھی اندر بُجھی رہی مجھ میں