ابتدائے عشق نے یارو! شمشیر نئی مانگی ہے
نیا قصہء درد مجھ سے؛ نظیر نئی مانگی ہے
شامِ غم بھولا کر تیرے پہلو میں دل نشیں
میری محبت نے تم سے تانیر نئی مانگی ہے
چل رہے ہیں گویا ہم اسی فرش خاکی پہ
تمناؤں نے مگر پھر سے اثیر نئی مانگی ہے
چھوڑ کر تو نہیں جا رہا تجھے میں ہمنوا
بس یونہی زلفوں کی اسیر نئی مانگی ہے
توڑ کر آئے تھے حدیں تمام جس کی خاطر
اُسی جفا کار نے عشق میں لکیر نئی مانگی ہے
میرا عشق نہیں ہے مختاج تیرے لفظوں کا فرؔخ
زمانے کو دکھانے کے لیے تقریر نئی مانگی ہے
رسوائے زمانہ ہوں پرخار ہے دامن انتظار
کچھ نہیں بس تم سے توقیر نئی مانگی ہے