ہوا نہیں ہے جی بھر کے دیدار ابھی تک
اترا نہیں ہے کل کا خمار ابھی تک
رکتا بھی نہیں ٹھیک سے دھڑکتا بھی نہیں ہے
سنبھلا نہیں ہے یہ دلِ بیمار ابھی تک
پُر خطر ہے راستہ اور ہیں پیچ و خم
ملے نہیں ہیں منزل کے آثار ابھی تک
ُُبیوفا بھی، ستمگر بھی، جفا پیشہ بھی
دیتا ہے مجھے الزام میرا دلدار ابھی تک
پیتے تو ہیں مگر نینا سے یار کے
دیکھے ہیں تو نے ایسے کیا مے خوار ابھی تک
نایاب کیا ہے جس نے وفا میں ہمیں رضی
اس بیوفا پہ ہے ہمیں اعتبار ابھی تک