ابھی زندگی ہے حسین کوئی بھی اضطرار نہیں رہا
یہ الگ ہے بات کہ کوئی میرا تو غمگسار نہیں رہا
وہ رقیب بن گیا ہے مرا یہی سچ ہے یار نہیں رہا
مجھے لگتا ہے کہ زمانے میں وہ خلوص پیار نہیں رہا
وہ سوال کر رہا ایسے جانتا جیسے وہ نہیں ہے مجھے
جو خلوص پہلے تھا آج کل وہ وصال یار نہیں رہا
وہ خیالِ یار تھا اب نہیں رہا وہ بدل گیا جانے کیوں
یہ رقیب غیر ہیں دوستوں پہ بھی اعتبار نہیں رہا
میں سکوں سے سو نہیں پاتا نیند چلی گئی ہے کہیں مری
وہ حسین لوگ نہیں رہے وہ ابھی خمار نہیِں رہا