ابھی ٹھہرو ذرا سا وقت کو آگے نکلنے دو
سنہرے موسموں کے جسم کا سونا پگھلنے دو
بچاتے ہو مجھے کیوں زندگی کی تلخیوں سے تم ؟
مجھے بننا ہے کندن وقت کی بھٹی میں گلنے دو
وہ انساں ہے خطا انساں سے آخر ہو ہی جاتی ہے
ذرا موقع تو دو اس کو ذرا اس کو سنبھلنے دو
مجھے بس فکر ہے تیری نگاہوں کے بدلنے کی
بدلتی ہیں زمانے کی اگر نظریں بدلنے دو
یکایک ماند پڑ جاییںٰ گے سارے دِن کے ہنگامے
ابھی دوپہر باقی ہے ذرا سورج کو ڈھلنے دو
ضروری تو نہیں ہم دِل کی ہر اِک بات کو مانیں
مچلتے ہیں اگر ارمان تو ان کو مچلنے دو
انھیں تو کام ہے اپنی سیاست کے چمکنے سے
جو اُچھلیں پگڑیاں شرفاء کی تو اُن کو اُ چھلنے دو