رسوائیاں تو ہوں گی اگر نہ لوٹو گے
بات کو دیر کیا لگتی ہے خبر ہونے میں
اشکوں کے ستارے چمکیں گے طلوعِ سحر تک
اور ابھی کچھ رات باقی ہے سحر ہونے میں
محبت سے عشق تک کا سفر کون کرے گا
قطرے کو مہ و سال چاہیئں لہر ہونے میں
جو لوگ بحرِ عشق میں اُتر جاتے ہیں چُپ چاپ
کیسا چسکا ہے اُنہیں موت کی نذر ہونے میں
غمِ جاناں سے سبکدوش ہو جایئں اگر مثلِ ملک
ضمیر کیا بات بری ہے پھر بشر ہونے میں