اب اترے گا یہ پانی رفتہ رفتہ
پھر ہوگی زندگانی رفتہ رفتہ
بات بات پہ دل دکھاتے ہو میرا
تمہیں ہوگی پشیمانی رفتہ رفتہ
آج عشق پہ جوبن ہے کچھ کر ڈالو
یونہی گزر جائے نہ جوانی رفتہ رفتہ
تقدیریں بن کے بگڑ بھی سکتی ہیں دیکھنا
تمہیں مار ڈالے گی یہ نادانی رفتہ رفتہ
کتنے ارمانوں سے دل دیا تھا تم کو
سب بھول گئے ہوجانی رفتہ رفتہ
جب بھی گزرے یادوں کی گلی سے تم
اترا پھر آنکھ ں میں پانی رفتہ رفتہ
خمار عشق نے یہ کیا کر ڈالا حبیب
ہر شے ہوئی بیگانی رفتہ رفتہ