زہر زندگی کا پینا نہیں
مجھے اب اور جینا نہیں
اے خوشیوں مجھ سے دور ہی رہا کرو
کہ اب مجھے اور غم زدہ ہونا نہیں
اے غموں اپنا سایہ پھیلائے رکھو
کہ خوشیوں کے بادل پر
میرا بسیرا نہیں
میں جانتی ہوں میرے اپنے
مجھے چاہتے ہیں
یوں مجھے دکھ دینا
ان کا مقصد نہیں
دکھ ہمیں خوشیوں کا احساس دلاتے ہیں
ہر دکھ کا مقصد درد دینا نہیں
میں تم سے دور رہ کر جینا چاہتی ہوں
لیکن اس کا مطلب یہ نہیں
کہ مجھے تم سے پیار نہیں
کیوں ہاتھوں کی لکیروں سے الجھوں میں
جب ان میں اپنا ملن
لکھا ہی نہیں
میں اس لیے بھی حد سے زیادہ
خوش ہوتی نہیں
کیونکہ خوشی مجھے کوئی
راس آتی ہی نہیں
سب کچھ جانتے ہوئے بھی
میں ایسے راستے پر چلنا چاہتی ہوں
جس کی کوئی منزل ہی نہیں
کبھی کبھی مجھے ایسا کیوں لگتا ہے
کہ تو میرے ساتھ ہو کر بھی ساتھ نہیں
بھول تو خیر اک دن تم نے بھی جانا ہے
پہلے سب ہی کہتے ہیں
نہیں میری جان ایسا نہیں
دل کی دھڑکن رک کیوں نہیں جاتی
جب جینے کی کوئی آس ہی نہیں