اب تو اِس دامن کو بچانا مشکل ہے
آندھیوں میں سر چھُپانا مشکل ہے
راستے بھر چکے ہیں اب کانٹوں سے
ایک قدم بھی اب اُٹھانا مشکل ہے
میری اَنا کا بھرم تو اب ٹوٹ گیا ہے
بس میری ذات کو مٹانا مشکل ہے
آج بھی ہیں کسی کی یادیں بسی
اب اِن یادوں کو بھلانا مشکل ہے
آگ لگی ہےجو دل کے آنگن میں
اشکوں سے اِسے بجھانا مشکل ہے
سارا زمانہ نیند کی آغوش میں ہوتا ہے
میری حسرتوں کو سلانا مشکل ہے
مسعود روز اُٹھتے اِن طوفانوں میں
دیپ اشکوں کے جلانا مشکل ہے