اب تو کرنی تم غلامی چھوڑ دو
چمچہ گیری میزبانی چھوڑ دو
دونوں ہاتھوں سے رہے ہو لوٹ تم
گھر میں بیٹھو حکمرانی چھوڑ دو
بیچتے ہو مال کھا کر قسمیں تم
اب چلو قسمیں اٹھانی چھوڑ دو
تیرا کچھ بھی اب نہیں ہوں لگتا میں
جان میری مہربانی چھوڑ دو
کیوں اذیت تم کسی کو دیتے ہو
جھوٹی تم باتیں بنانی چھوڑ دو
تم نے لوٹا ہے مرے تو دیس کو
ظلم سے دولت کمانی چھوڑ دو
تم غریبوں کا لگے حق کھانے ہو
تم سیاست ہی دکھائی چھوڑ دو
تم کو اب انصاف ملنا ہی نہیں
تم قلم اپنی چلانی چھوڑ دو
جو لکھا ہے رب نےٹل سکتا نہیں
اپنی قسمت آزمانی چھوڑ دو
بذلہ سنجی میں نے دیکھی ہے تری
یار اب تو. بد گمانی چھوڑ دو
مار ڈالا بے گنہ کو تم نے کیوں
خود کو کہنا مسلمانی چھوڑ دو
نت کہانی تم بناتے ہو نئی
اپنا فرقہ قادیانی چھوڑ دو
وقت ضائع کر رہے شہزاد
اب نئی غزلیں بنانی چھوڑ دو