اب جو صحرا میں ڈھل رہی ہوں میں
تیری یادوں کا تھل رہی ہوں میں
تو بھی خوشبو سے کھیل لے آجا
کھول زلفوں کے بل رہی ہوں میں
آج سپنا ہے غیر کا لیکن
تیری آنکھوں میں کل رہی ہوں میں
وہ مسافر ہے آخری شب کا
کیوں ہواؤں میں جل رہی ہوں میں
جب سے چھوڑی ہے آس کی تتلی
ہاتھ ایسے ہی مل رہی ہوں میں
یہ سمندر ہے آنکھ میں وشمہ
اور دریا کی چھل رہی ہوں میں