یوں وقت ناں گنواؤ کہ اب شام ہو گئی
گھر کی طرف بھی آؤ کہ اب شام ہو گئی
چرچے ہیں آوارگی کے تیرے شہر میں آجکل
خود کو ناں یوں بہلاؤ کہ اب شام ہو گئی
آنکھوں میں تیری رتجگے کی کیوں ہیں لالیاں
بہکے قدموں سے ہی آؤ کہ اب شام ہو گئی
تیری وفا کی لاش میرے کاندھوں پہ بوجھ ہے
اب اتنا بھی ناں رلاؤ کہ اب شام ہو گئی
کیوں اپنا آپ ہم سے چھپانے میں ہو مگن
سارے شہر میں شور ہے کہ اب شام ہو گئی