اب مصرعۂ جاں بن کے تو قرطاس پر اتر
اب بڑھ رہی ہے بے حسی احساس پر اتر
دکھلا نہ جھومتے ہوئی دو آنکھیں مجھ کو اب
حرفِ تسلی بن جا مری پیاس پر اتر
تو آیتِ سکینہ ہے الہام کی طرح
مجھ کو سکوں دے اور دلِ حساس پر اتر
مٹ جائے گی کشیدگی دل کی کشود سے
نقشِ جہانِ بَست تو الماس پر اتر
کھو بیٹھے اہلِ ہجر حواس اپنے ہجر میں
اے سمتِ وصل اب تو تو کمپاس پر اتر
تو دیوی حسن کی ہے عنایت تو کر دے کچھ
اوتار عشق کا لے کسی داس پر اتر
لگتی ہے ہجر میں تو شکر بھی کریلے سی
شیرینئ حیات تو میٹھاس پر اتر
آخر زبانِ شمعِ یقیں کٹ رہی ہے اب
معدوم کہہ غمِ جاں کو اب آس پر اتر