مین کتنی خوش تھی کہ
تم ساتھ تھے میرے
چاہیں دور سہی پر اک
تم ہی تو ہم راض تھے میرے
نا کوئی تفصیل کبھی تم سے مانگی
نا کوئی دلایل کبھی تم سے مانگی
پھر بھی یر موڑ پے دیتے رہے سزا
جسے کوئی انجانا گناہ تھے تم میرے
نجانے میں کیسے
سوار ہو گئی کشتی میں تمہاری
جو مجھے تنہا چھوڑ گیے
جسے کوئی ادھورا خوب تھے تم میرے
تمہارے جانے کے بعد بھی
نا بدلی میری زندگی
اور نا ہی بدلی میں
پھر تم اتنی جلدی کیسے بدل گئے
جسے کوئی اچھے حالات تھے تم میرے
کیوں چھین لیا ؟ مجھے سے ذوق بھی میرا
جانتے ہو کیا ؟ ان چھپے لفطوں میں
اک تم ہی تو عنواں تھے میرے
کبھی چل کر تو دیکھنا تھا
ُان لفظوں پے جہاں قدم قدم پے
اشعار تھے تم میرے
میں ابھی تک بھولی نہیں تمہاری آواز کو
جسے دل کی دھڑکنوں کے ساز تھے تم میرے
اب میں کیسے زندہ رہوں تمہارے بغیر لکی
کہ اک تم ہی تو جینے ہی وجہ تھے میرے