مرجھا گیا تو کیا ہوا یہ پھول تھا کبھی
اب نہ سہی تیرے لئے مقبول تھا کبھی
موسم کی گردشوں نے اس کو بدل دیا ہے
سب کی نگاہ و دل کو جو قبول تھا کبھی
اس پر ہر ایک رابطے کو بند کردیا
جس کا پیام سب کو وصول تھا کبھی
تنہائیوں کی فرصت نے اس کو آلیا ہے
ہر بزم میں رہتا جو مشغول تھا کبھی
اسکا ذکر اسکی باتیں ہر جگہ ہونے لگیں
جو سب کے لئے ہو چلا فضول تھا کبھی
عظمٰی وہ کھو گیا تو سب کو یاد آگیا
مذکور اس کا ہر جگہ مقبول تھا کبھی