اب کرچیاں دل کی سمیٹ لیتے ہیں
بہت ہو گیا یہ تماشا محبت کا
نیم بسمل تو اس درد نے کر دیا ہے
اور کیا ہے نیا تقاضا محبت کا
اسیر ذات جو ہوا تو پلٹ کر نہیں آتا
کہاں بھٹکے اب یہ دیوانہ محبت کا
چشم نم تو کب سے ویراں ہے
آخر کب تلک ہوں گریہ محبت کا
سات پردوں میں چھپ جائے لیکن
نکل ہی آتا ہے کہیں رستہ محبت کا
یہ شمع تو اب تاعمر جلے گی
کیوں سزا پائے یوں پروانہ محبت کا
رنج و الم تنہائی بے وفائی
کیا یہ ہی ہے شیوہ محبت کا