جس کے آتے ہی چلی جائے غیرت اے زندگی
ہمیں ایسی بھی نہیں چاہیے شہرت اے زندگی
بنی فساد کی ہے باعث یہی تو اکثر‘ اس لئے
ہو گئی دنیا کی دولت سے کراہت اے زندگی
آخر ہے کام کس کا پینا خون آدمی کا؟
آج ہوتی ہے سوچ کر یہی حیرت اے زندگی!
اب کیا تو ہوگی‘ انتہا‘ ہوچکی انسانیت کی
دیکھ بڑھ رہی ہے کیسے جہالت اے زندگی
عوام خود ہی سبب ہے ہر ایک ظلم و ستم کا
عبث حکم کو دے رہی ہے ملامت اے زندگی
تیزی رفتار ظلمت میں آگئی اس قدر ہے‘ کہ
ہو گئی پہلے قیامت سے‘ قیامت اے زندگی
دیکھا عزت کا تماشا جو‘ سوچ آئی ہمیں یہ
اس دور سے کی جائے بغاوت اے زندگی
کھول دے آنکھیں کر دے بیدار بھی جو‘ اب
دکھا دے ایسی کرامت کوئی‘ قدرت اے زندگی