اب کیا لکھں ہم کاغذ پر اب لکھنے کو کیا باقی ہے
اک دل تھا وہ بھی ٹوٹ گیا اب ٹوٹنے کو کیا باقی ہے
اک شخص کو ہم نے چاہا تھا اک ریت پہ نقش بنایا تھا
وہ ریت تو کب کی بکھر چکی وہ نقش کہاں اب باقی ہے
جس کو ہم اپنی نظموں کا عنوان بنایا کرتے تھے
لفظوں کا بنا کے تاج محل کاغذ پہ سجایا کرتے تھے
وہ شخص جو مجھ کو چھوڑ گیا سب رستوں سے منہ موڑ گا
اب رستے سارے سونے ہیں وہ پیار کہاں اب باقی ہے
اب کیا لکھیں ہم کاغذ پر اب لکھنے کو کیا باقی ہے