وہ تصور جو اکیلے میں ہنساتا تھا کبھی
وہ اک شخص خیالوں میں آتا تھا کبھی
جس کے آنے سے ہواؤں سے مہک اٹھتی تھی
وہ جو چلتا ہوا صباہ کو جلاتا تھا کبھی
جس کی ہنسی نے گلوں کو بی سلیقہ سیکھایا
جو تیرنا ہوا میں لہروں کو سیکھاتا تھا کبھی
سارے تاروں کی چمک ماند کیے دیتا تھا
وہ جو پلکوں کو نزاکت سے اٹھاتا تھا کبھی
اب کیوں دشوار ہے اس کا تصور کرنا سعادت
جس کا چہرہ میری یادوں کو سجاتا تھا کبھی