اتنا نازک ہو تعلق تو نبھاؤں کیسے
دیار محبت کو میں چھوڑ نہ آؤں کیسے
سورج کی شعائیں بھی رہیں سہمی سہمی
میں نفرت کے اندھیروں کو بجھاؤں کیسے
چھپا رکھا ہے لٹیروں سے سب مال و متاع
امیر کارواں مگر تم سے چھپاؤں کیسے
گوشہ دل سے ہمیں تلخی کے سوا کچھ نہ ملا
تو ہی بتا پھر تجھے بھول نہ جاؤں کیسے
چھائے ہیں ظلمتوں کے اندھیرے چار سو
روشنی کے لئے گھر کو نہ جلاؤں کیسے
ملا جو خاک میں مظہر تو صدا آتی ہے
شہر خاموشاں میں اب اسے ستاؤں کیسے