اجریں وفا کیا اور اجریں خطا کیا تھی
تم نہیں تو پھر قبولیت دعا کیا تھی
ٹوٹ چکا تھا محل خوابوں کا
پھر مٹی کے ُبت میں انا کیا تھی
میری تکلیف سمجھ کر بھی وہ کیوں نہیں سمجھا
جیسے حل موت بعد ۔ علاجیں دوا کیا تھی
اتنا اصول پسند تو وہ پہلے کبھی نا تھا
پھر آج اصولوں کو نبھانے کی ضرورت کیا تھی
کتنی گرد غبار جم گئی ہیں بے جان رشتوں پے
پھر آج آنئیے میں جھانکنے کی بے خودی کیا تھی
مددت سے نا دیا اک جام پیاسے کو ساقی نے
پھر آج مکدے میں تماشے کی وجہ کیا تھی
ہم تو چپ چاپ ہی لوٹ آئے تھے تیری خوشی کی خاطر
پھر مددتوں بعد آج ہمارے حال پوچھنے کی ادا کیا تھی