بات کچھ دن کی ہی تھی
وہ اجنبی جو ملا
اک راستے میں یونہی
ٹھٹک کے دیکھتا اور رک جاتا تھا
اسکے الفاظ بھی اسی کی طرح
کچھ اجنبی تھے پر
دل کو بھلے لگتے تھے
اور پھر کچھ ایسا ہوا
یہ مراسم پھر بڑھے
ہم سر محفل اسے اپنا صنم کہنے لگے
بات سے بات بڑھی
وقت اچھا بھی گیا
اسکی آہٹ کو ترسنے لگا
من پاگل میرا
سپنے میں بننے لگی
سنگ اسکے میں کئ
پھول، خوشبو کو کہانی میں
دل سنجونے لگا
اسکے چہرے کی مسکان
اسکی آنکھوں کا دمکنا
اسکی ہر ایک ادا
میری باتوں کو بڑے غور سے
سننا اس کا
مجھ کو بھاتا تھا بڑا
پر کہیں دل بھول گیا
راستے تو منزل کا پتہ دیتے ہیں
انکو منزل سمجھنا ہی بھول ہوتی ہے
لوگ تو روز ہی ملتے ہیں کئ
اور کئ روز بچھڑ جاتے ہیں
ایسے ہر اک سے کوئ
دل کو لگانا کیسا
اجنبی کو اک دل میں بسانا کیسا
اس نے جانا تھا
ایک دن اور چلا بھی گیا
میں سرائے کی طرح خالی
ویران ہوئ
اپنی ہستی کی بکھرنے کا کیا ماتم کرتی
کس سے کہتی کہ یہ دھوکا بھی نہیں
میری ہی غلطی تھی مگر
اشک موتی کی طرح
راہ میں لٹاتی ہی رہی
آج بھی دیکھتی رہتی ہوں
کسی گھائل کی طرح
ڈھونڈتی ہوں اسے پاگل کی طرح
کبھی اس در کبھی اس در
بھٹکتی رہتی
جس نے آنا نہ کبھی
اسکا انتظار مجھے
جانے کب تک کرے دل یہ بے قرار مجھے
آہ! وہ اک اجنبی ہی تو تھا
آہ!وہ اک اجنبی ہی تو تھا