احترامِ محبت تو بہت تھا‘ محبت کو مگر بچا نہ سکی
اعلانِ عام کیامگر اُس کو کبھی بتا نہ سکی
زمانے نے بھی تو رُسوا جی بھر کے کیا مجھے
وہ سوال کیے جو میں بھی کبھی چُھپا نہ سکی
سینے میں بڑی اندر تک تھیں گہرائیاں اُس کی
ملا نہ گیا اُس سے‘ سینے سے اُسے لگا نہ سکی
نہ وہ بھی سُن پایا کبھی دھڑکن کو میری
میں بھی اُسے دُکھ کی تنہائیاں سُنا نہ سکی
دور تک اُس کی راہوں میں ڈیرہء رنج لگایا میں نے
یہ میری بد نصیبی کہ اُسے پڑھا نہ سکی
بارہا رُکا قلم اک اُس کے نام پہ آکے
جان نہ پائی‘ نام بھی اُس کالکھوا نہ سکی
ڈال ہی نہ سکی اُس کی آنکھوں میں آنکھیں
وفا کی جھلک بھی آنکھوں میں دِکھا نہ سکی
پڑتا ہی گیا تقصیرِ محبت کا زوال مجھ پہ
نظر کے پردے میں چُھپا وہ پردہ ہٹا نہ سکی