اداسیوں کا مسلسل یہ دور چلنا ہے

Poet: فردین By: فردین, Karachi

اداسیوں کا مسلسل یہ دور چلنا ہے
نہ کوئی حادثہ ہونا نہ جی بہلنا ہے

وہ اور ہوں گے ملا جن کو روشنی کا سفر
ہمیں تو بجھتے چراغوں کے ساتھ چلنا ہے

یہ ڈھلتی عمر کے رستے بہت تھکا دیں گے
قدم قدم پہ نیا راستہ نکلنا ہے

وداع ہو گئی کہہ کر یہ خوشبوؤں کی صدا
گلاب جسموں کو اب پتھروں میں ڈھلنا ہے

کسی کا لہریں منائیں گی جشن غرقابی
پھر آج رات سمندر بہت اچھلنا ہے

مری شکست میں مضمر ہے تیری کوتاہی
تجھے بھی میری طرح کل کو ہاتھ ملنا ہے

Rate it:
Views: 210
29 Jan, 2025