اداسی کی یہ رت کیسی چھائی
بعد تیرے ویرانیٴ دل میں نہ بہار آئی
اپنا حافظہ بھی تو بلا کا ہے
کوئی بات بھی تیری نہ بھول پائی
خوشنما تھےسبھی رنگ تجھ پر مگر
بھولتا ہی نہیں تیرا وہ دست_ حنائی
کئی بار تو ڈھل گئی شعر میں
کئی بار غزل اختتام تک نہ آئی
کئی بار خاموشی کا قفل ٹوٹا
ہر بار لگا یہ کہ تیری آواز آئی
اڑ کر آیا کہیں سے اک پیپل کا پتہ
جیسے لکھ بھیجا ہو تم نے "سودائی"
لگتا ہے کہ بارش کا موسم ہے
صبح سے آنکھوں میں نمی آئی