تو لاکھ جتن کر نھیں جانے کی اداسی
اندر ھے مرے ایک زمانے کی اداسی
اس وقت کے کربل میں اثاثہ ھے ھمارہ
اے شاہ امم تیرے گھرانے کی اداسی
پھیلی ھے مرے گھر در و دیوار پہ اب تک
اے دوست ترے چھوڑ کہ جانے کی اداسی
گو جان تھی پھر بھی پلٹ آیا کہ مجھ سے
دیکھی نہ گئی آئنہ کھانے کی اداسی
کھنے کو تو زندہ ھیں مگر روح میں عادل
باقی ھے کماں پھینک کہ آنے کی اداسی