ہاتھوں پہ رخسار سجائے
چلمن سے وہ ٹیک لگائے
سسکیاں آہیں وہ بھرتا ہے
اور چپکے سے وہ تکتا ہے
افق کے اس پار ہے جانا
پیا ملن کی آس لگانا
ایسا تو پر ہو گیا مشکل
بھٹک گئی ہے اسکی منزل
کن سوچوں کا وہ ہے باسی
اسکا ساتھی صرف اداسی
جسکی خاطر وہ بیٹھا ہے
کرکے یاد تو وہ تڑپا ہے
لیتے رہنا نام اسی کا
اب تو بس کام اسی کا