ادھر دیکھے کبھی ادھر دیکھے
جلوے تیرے نگر نگر دیکھے
جو دیکھ لے ، اک بار تجھے
نہ پھر وہ بزم دہر دیکھے
چلا جب ، خوابوں کا سلسلہ
خواب تیرے شام و سحر دیکھے
بھول گئے تمام حادثات غم
جب سے رنگ ستم گر دیکھے
ٹھکرا دیا ، جسے تم نے
کھاتے ٹھوکریں وہ در بدر دیکھے
غیر ممکن ہے ، زمانے میں کوئی
تجھ سا کہیں ، دل بر دیکھے
گزر جائے ، جہاں سے تو
قدم قدم برپا حشر دیکھے
نسبت سے تیری خاک پاء کی
بنتے لعل و یمن ہیں پتھر دیکھے
جہاں نہ ذکر یار ہوتا ہو
بے نور ایسے محراب و منبر دیکھے
تیرے بغیر ہے ، کیسی گزر اوقات
آئے فرہاد اور میرا صبر دیکھے
زندہ ہیں شہر ستم گر میں
حوصلہ کوئی ، ہمارا جگر دیکھے
بے نیازی سے طاہر اس کی
اجڑتے شہروں کے شہر دیکھے