استفادہ کر لیا ہے
Poet: رشید حسرتؔ By: رشید حسرتؔ , Quettaخوشی سے غم ذیادہ کر لیا ہے
 ہؤا جو استفادہ کر لیا ہے
 
 مرغن سے اسے پابندیاں تھیں
 سو کھانا ہم نے سادہ کر لیا ہے
 
 گناہوں کی سکت باقی نہیں، سو
 مدینے کا ارادہ کر لیا ہے
 
 سزا سے بچ گئے استاد کی ہم
 کہ مشقوں کا اعادہ کر لیا ہے 
 
 کھلانی تھی اسے بچّوں کو روٹی
 سو ماں نے کیسا وعدہ کر لیا ہے
 
 وزارت کے مزے لوٹے ہیں ڈٹ کر
 خیانتداری جادہ کر لیا ہے
 
 ابھی باقی ہے اس کے دل میں تنگی
 اگرچہ گھر کشادہ کر لیا ہے
 
 اسے دکھ جھیلنا ہے جس نے، اپنی 
 شرافت کو لبادہ کر لیا ہے
 
 جسے حسرتؔ بنایا شاہ زادہ
 اسی نے ہی پیادہ کر لیا ہے
More Life Poetry
ہر کام کا وقت مقرر ہے ہر کام کو وقت پہ ہونا ہے ہر کام کا وقت مقرر ہے ہر کام کو وقت پہ ہونا ہے
کس بات کی آخر جلدی ہے کس بات کا پھر یہ رونا ہے
دنیا کے مصائب جھیلنے کو مالک نے بنایا ہے جیون
آرام بھلا پھر کاہے کا پھر کاہے یہ سونا ہے
بے مقصد جینا کہتے ہیں حیوان کے جیسا جینے کو
انساں کے لیے تو یہ جیون یارو پر خار بچھونا ہے
دشوار سہی رستہ لیکن چلنا ہے ہمیں منزل کی طرف
منزل کی طلب میں عاکفؔ جی کچھ پانا ہے کچھ کھونا ہے
 
کس بات کی آخر جلدی ہے کس بات کا پھر یہ رونا ہے
دنیا کے مصائب جھیلنے کو مالک نے بنایا ہے جیون
آرام بھلا پھر کاہے کا پھر کاہے یہ سونا ہے
بے مقصد جینا کہتے ہیں حیوان کے جیسا جینے کو
انساں کے لیے تو یہ جیون یارو پر خار بچھونا ہے
دشوار سہی رستہ لیکن چلنا ہے ہمیں منزل کی طرف
منزل کی طلب میں عاکفؔ جی کچھ پانا ہے کچھ کھونا ہے
اسلم







 
  
  
  
  
  
  
  
  
  
  
 